عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
کیا شانِ "رَفَعْنا" ہے؛ کیسی یہ بڑائی ہے
مختارِ دو عالم کے قبضے میں خدائی ہے
یہ رنگِ بشارت کی تعبیرِ طلائی ہے
سنتے ہیں کہ محشر میں صرف ان کی رسائی ہے
گر ان کی رَسائی ہے لو جب تو بن آئی ہے
اپنوں نے یہاں حرفِ انکار دیا ہم کو
جاں سوز تمازت کا اک نار دیا ہم کو
احباب و اقارب نے دھتکار دیا ہم کو
سب نےصفِ محشر میں للکار دیا ہم کو
اے بیکسوں کے آقا اب تیری دہائی ہے
افلاس کے عالم میں کیا غیر کجا اپنا
ہر ایک نے بڑھ چڑھ کر نقصان کیا اپنا
اس امرِ تجارت میں گھاٹا ہی ہوا اپنا
بازارِ عمل میں تو سودا نہ بنا اپنا
سرکار کرم تجھ میں عیبی کی سمَائی ہے
رخساروزقن ڈھک دو دندان ودہن ڈھک دو
محجوب طلب تن پر اک سایہ فگن ڈھک دو
سر تا بہ قدم اس کے اعضائے بدن ڈھک دو
مجرم کو نہ شرماؤ احباب کفن ڈھک دو
منہ دیکھ کے کیا ہوگا پردے میں بھلائی ہے
اس بابِ ارادت میں حجت نہ کرے ناقد
اثباتِ ترفع کی ہر شق ہے یہاں فاسد
میزانِ عقیدت پر کیا بحثِ کم و زائد
طیبہ نہ سہی افضل مکہ ہی بڑا زاہد
ہم عشق کے بندے ہیں کیوں بات بڑھائی ہے
آغازِ روایت میں اجمال جو تھا واللہ
تفصیلِ درایت میں وہ راز کھلا واللہ
تشکیکِ مُشکک پر ثاقب تُو نہ جا واللہ
مطلَع میں یہ شک کیا تھا واللہ رضا واللہ
صرف اُن کی رسائی ہے صرف اُن کی رسائی ہے
ثاقب قمری مصباحی
No comments:
Post a Comment