رسم نبھانے آئیں گے دکھانے کے لیے رو لیں گے
مجھے دفنا کے یہ لوگ اپنی اپنی راہ ہو لیں گے
زندگی بھر تو کسی نے سکون لینے نہیں دیا ہے
اچھا ہے سب کفن اوڑھ کر چین سے سو لیں گے
محبت کرتے وقت ذرا سا بھی یہ احساس نہیں ہوا
کہ ہم خود اپنے ہاتھوں سے اپنے لیے کانٹے بولیں گے
لوگوں ہمیں نہ چھیڑو خاموش ہی رہنے دو
کوئی پارسا نہیں بچے گا اگر ہم زبان کھولیں گے
کیا ہوا جو کوئی چارہ گر ہمیں میسر نہیں ہوا ہے
ہم داغ جگر سارے سپنے ہی اشکوں سے دھو لیں گے
آپ اپنی فکر کریں گر حالات بدل گئے تو کیا ہو گا
ہمیں چھوڑو ہماری تو عادت ہے کانٹوں پہ سو لیں گے
خون نا حق کبھی چھپ نہ سکے چھپانے سے سلیم
قاتل دامن صاف کر لیں گے بھلے ہاتھ دھو لیں گے
یہ تو دستور قدرت ہے جیسی کرنی ویسی بھرنی
سوچ لیں کہ آپ جو دیں گے ہم سے وہ لیں گے
آج امتحان میں ہیں وہ دل اور دنیا کے درمیان
دیکھتے ہیں کسے چھوڑیں گے جس کو لیں گے
یہ خبر نہ تھی کہ جسے اتفاقاً ہم نے پا لیا ہے
اسی کو ایک دن ہم جان بوجھ کر کھولیں گے
الٰہی جس قدر غم تقدیر میں لکھ دئیے گئے ہیں
سلیم اس حساب سے سینے میں دل بھی دو لیں گے
سلیم احمد ایوبی
No comments:
Post a Comment