اک اضطراب جو دل میں بہت چڑھا ہوا ہے
کئی دن سے یہ دریائے دل چڑھا ہوا ہے
نواحِ شہر میں ہر سُو ہے ایک سناٹا
دیارِ دل میں مگر شور سا مچا ہوا ہے
یہ شہر شہرِ نگاراں ہے اس کے پر گھر کا
ہر ایک فرد کئی کا کٹا ہوا ہے
اجڑ رہا ہے تو زخموں سے چُور چُور ہوں میں
یہ باغ جیسے مِرے ہاتھ کا لگا ہوا ہے
ستارہ بن کے سرِ آسمان دمکے گا
وہ حرف سا جو زباں سے مِری ادا ہوا ہے
ادھر سے گزری تھی موجِ بہارِ دامنِ یار
سو شاخِ دل پہ گُلِ تازہ اک کِھلا ہوا ہے
قدم سنبھال کے رکھتے ہیں اہلِ دل عابد
کہ دامِ دہر ہر اک سمت ہی بچھا ہوا ہے
شوکت عابد
No comments:
Post a Comment