Tuesday, 10 June 2025

ظلمت و نور میں وحدت نہیں ہو گی ہم سے

 ظلمت و نور میں وحدت نہیں ہو گی ہم سے

یعنی ما بعدِ صداقت نہیں ہو گی ہم سے

جن کی تعبیر میں ہستی کا زیاں بھی ہو قبول

ایسے خوابوں کی اہانت نہیں ہو گی ہم سے

ہم حسینیؑ ہیں ملوکانہ اصولوں کے خلاف

اے یزیدی! تِری بیعت نہیں ہو گی ہم سے

عشق کو کرنی پڑے حسن کی دریوزہ گری

معذرت! ایسی محبت نہیں ہو گی ہم سے

ذہن شہری ہے، مگر دل ہے بہت دشت پسند

اے بیاباں! تجھے وحشت نہیں ہو گی ہم سے

آپ دستار سجائیں گے بشرطِ سرِ خم

آپ رہنے دیں، یہ زحمت نہیں ہو گی ہم سے

سر کو کاسہ جو بنائیں تو ملے تاج کی بھیک

ہم قلندر ہیں، یہ ذِلت نہیں ہو گی ہم سے

شہرِ نو زاد سے جنگل ہی بھلا ہے خالد

خونِ آدم کی تجارت نہیں ہو گی ہم سے


خالد مبشر

No comments:

Post a Comment