Sunday, 8 June 2025

اب نہ حسرت ہے کہ احسان اٹھایا جائے

 اب نہ حسرت ہے کہ احسان اٹھایا جائے 

خوں کے بدلے میں مرا خون بہایا جائے 

ہم تو حیراں ہیں کہ اب قتل یہ کس سر جائے 

حاکمِ وقت کسی طور بلایا جائے

ایک اندیشۂ بے نام سے لرزاں ہو تو پھر 

اُس سلگتے ہوئے آنچل کو بجھایا جائے 

اب بھلا کس کے نصیبوں میں ہو تیری قربت 

اک جھلک مجھ کو وہ چہرہ تو دکھایا جائے 

جس سے پھیلی تھی کبھی دل میں بلا کی نفرت 

اب مِرے سامنے اُس خط کو جلایا جائے 

دل کے بدلے میں بھلا جان کی چاہت کیسی 

شوق پھر شوق، کسی سمت چلایا جائے 

اپنے کیسے ہیں جو انجان بنے بیٹھے ہیں 

وقت کا کھیل سرِ بزم سنایا جائے 

نفرتیں دل میں لیے قبر چلے جاتے ہیں 

حال لوگوں کو ذرا اس کا بتایا جائے

وہ تو بُزدل ہیں کسی خوف کا طعنہ دیں گے 

تیر یہ سینے پہ ماجد کا دکھایا جائے 


عبدالماجد ہاشمی

No comments:

Post a Comment