Monday, 9 June 2025

گزر چکے ہیں رگ جاں پہ حادثے کتنے

 گزر چکے ہیں رگ جاں پہ حادثے کتنے

زبان وقت چکھے اور ذائقے کتنے

شجر گرا تھا کہ انساں پھلوں پہ ٹوٹ پڑے

کسے یہ ہوش کہ اس پر تھے گھونسلے کتنے

وہ رات جس کے سبھی خواب رنگ لاتے تھے

اس ایک رات میں ہم خواب دیکھتے کتنے

درست ہے کہ تہوں تک پہنچ گئے لیکن

ہم ایک سانس میں گوہر نکالتے کتنے

دعا کے بعد کا منظر بھی دیدنی تھا کنور

براے رد دعا اور ہاتھ اٹھے کتنے


اعجاز کنور راجا

No comments:

Post a Comment