گزر چکے ہیں رگ جاں پہ حادثے کتنے
زبان وقت چکھے اور ذائقے کتنے
شجر گرا تھا کہ انساں پھلوں پہ ٹوٹ پڑے
کسے یہ ہوش کہ اس پر تھے گھونسلے کتنے
وہ رات جس کے سبھی خواب رنگ لاتے تھے
اس ایک رات میں ہم خواب دیکھتے کتنے
درست ہے کہ تہوں تک پہنچ گئے لیکن
ہم ایک سانس میں گوہر نکالتے کتنے
دعا کے بعد کا منظر بھی دیدنی تھا کنور
براے رد دعا اور ہاتھ اٹھے کتنے
اعجاز کنور راجا
No comments:
Post a Comment