یہ رنگ و روپ اب نہ رہے گا مکان کا
ہیرو بدل چکا ہے مِری داستان کا
چمگادڑوں کی قوتِ احساس چھین کر
آنکھوں نے کام لے لیا ہے بے زبان کا
پگلائے ہوئے ارض و سما گھوم رہے ہیں
بستی میں وقت آ گیا ہے امتحان کا
بارش کی یورشوں سے بدن بھیگ چکا ہے
رکھتا ہے پھر بھی حوصلہ پنچھی اڑان کا
خوشتر خموشیوں سے نکل کر چلے چلو
دکھلا رہا ہے آب بدن آسمان کا
خوشتر مکرانوی
No comments:
Post a Comment