Sunday, 2 November 2025

جب دل ٹوٹا دیوانے کا

 جب دل ٹوٹا دیوانے کا

آغاز ہوا افسانے کا

تب اور شمع کی لو بھڑکی

جب جسم جلا پروانے کا

جب اپنا ہی اپنا ہی اپنا نہ رہا

تب شکوہ کیا بیگانے کا

جب اپنے ہاتھوں زہر پیا

کیا جرم ہے تب پیمانے کا

جب ہر دروازہ بند ہوا

بس وا ہے در میخانے کا

اب درد کے مارے کیسے جئیں

اور رستہ نہیں مر جانے کا

جب دل کی جلن برداشت نہ ہو

کیا ساماں دل بہلانے کا

امیدیں بسمل ٹوٹ گئیں

کیا سمجھانا دیوانے کا


دیوداس بسمل

No comments:

Post a Comment