جب دل ٹوٹا دیوانے کا
آغاز ہوا افسانے کا
تب اور شمع کی لو بھڑکی
جب جسم جلا پروانے کا
جب اپنا ہی اپنا ہی اپنا نہ رہا
تب شکوہ کیا بیگانے کا
جب اپنے ہاتھوں زہر پیا
کیا جرم ہے تب پیمانے کا
جب ہر دروازہ بند ہوا
بس وا ہے در میخانے کا
اب درد کے مارے کیسے جئیں
اور رستہ نہیں مر جانے کا
جب دل کی جلن برداشت نہ ہو
کیا ساماں دل بہلانے کا
امیدیں بسمل ٹوٹ گئیں
کیا سمجھانا دیوانے کا
دیوداس بسمل
No comments:
Post a Comment