دلوں میں اس خرابی سے پریشانی بہت ہے
کہاں سے ہے، کہاں تک ہے، خبر اسکی نہیں ملتی
یہ دنیا اپنے پھیلاؤ میں انجانی بہت ہے
بڑی مشکل سے یہ جانا کہ ہجرِ یار میں رہنا
بہت مشکل ہے پر آخر میں آسانی بہت ہے
ہر چند سہارا ہے تِرے پیار کا دل کو
رہتا ہے مگر ایک عجب خوف سا دل کو
وہ خواب کہ دیکھا نہ کبھی لے اڑا نیندیں
وہ درد کہ اٹھا نہ کبھی، کھا گیا دل کو
یا سانس کا لینا بھی گزر جانا ہے جی سے
یا معرکۂ عشق بھی اک کھیل تھا دل کو
ہم پی گئے سب، ہلے نہ لب تک
جی ہار گئے، نجومِ شب تک
ہر چند گھٹائیں چَھٹ گئی ہیں
پر دل پہ غبار سا ہے اب تک
خوش ہو نہ زمانہ! میرے غم پر
آئے گا یہ دورِ جام سب تک
کوٹھے اجاڑ، کھڑکیاں چپ، راستے اداس
جاتے ہی ان کے کچھ نہ رہا زندگی کے پاس
دو پَل برس کے ابر نے دریا کا رخ کیا
تپتی زمیں سے پہروں نکلتی رہی بھڑاس
اشکوں سے کس کو پیار ہے آہوں سے کس کو اُنس
لیکن یہ دل کہ جس کو خوشی آ سکی نہ راس
بت بنے راہ تکو گے کب تک
آس کی آنچ سہو گے کب تک
سر اٹھا کر کبھی دیکھو تو سہی
دل کی دنیا میں بسو گے کب تک
جس نے اپنی بھی خبر لی نہ کبھی
تم اسے یاد کرو گے کب تک
وہ پاس آئے، آس بنے، اور پلٹ گئے
کتنے ہی پردے آنکھوں کے آگے سے ہٹ گئے
ہر باغ میں بہار ہوئی خیمہ زن، مگر
دامن کے ساتھ ساتھ یہاں دل بھی پھٹ گئے
گمراہیوں کا لپکا کچھ ایسا پڑا کہ ہم
منزل قریب آئی تو رہبر سے کٹ گئے
آویزشیں بڑھتی ہی گئیں قلب و نظر میں
کیا کچھ ہے ابھی دیکھئے تقدیرِ بشر میں
چڑھتے ہوئے سورج نے میرے داغِ جگر پر
قربان کیا جو بھی تھا دامانِ سحر میں
میدان کا جیتا ہوا تنہائی میں ہارا
کیا جانئے، کیا سحر تھا کافر کی نظر میں
وائے نادانی یہ حسرت تھی کہ ہوتا در کھلا
ہم قفس راز اسیری کیا کہیں کیونکر کھلا
فرصت رنج اسیری دی نہ ان دھڑکوں نے ہائے
اب چھری صیاد نے لی اب قفس کا در کھلا
اللہ اللہ اک دعائے مرگ کے دو دو اثر
واں کھلا باب اجابت یاں قفس کا در کھلا