اف یہ تیغ آزمائياں، توبہ
تیری نازک کلائیاں، توبہ
کیا کریں بندگانِ محبوبی
عاشقی کی خدائیاں، توبہ
منزلِ عشق اے خدا کی پناہ
ہر قدم کربلائیاں، توبہ
یاد و ایام و شوق و عشق و جنوں
چراغ کی فتنہ ضیائیاں، توبہ
لطفِ بے گانگی، معاذ اللہ
ان کی سادہ ادائیاں، توبہ
حسن میں رقص کا سا اک عالم
شوق کی نے نوائیاں، توبہ
ہائے غمازیاں نگاہوں کی
اپنی بے دست و پائیاں، توبہ
اف وہ احساسِ حسن پہلے پہلے
یک بیک کج ادائیاں، توبہ
اللہ اللہ عشق کی وہ جھجک
حسن کی کہربائیاں، توبہ
اس کے دامن پہ دل کا جا پڑنا
ہم سے یہ بے وفائیاں، توبہ
غیض سے ابروؤں پہ یہ شکنیں
دل پہ زور آزمائیاں، توبہ
آستینوں کا وہ چڑھا لینا
گوری گوری کلائیاں، توبہ
نظروں نظروں میں خواہش سربزم
دل ہی دل میں لڑائیاں، توبہ
سوزِ غم کی شکایتیں ہائے ہائے
دردِ دل کی دہائیاں، توبہ
برملا سخت رنجشیں باہم
غائبانہ صفائیاں، توبہ
اپنے مطلب سے عشق کی چھیڑیں
ظاہری بے وفائیاں، توبہ
حسن و توہینِ عشق ہائے، غضب
اپنی وہ خود ستائیاں، توبہ
غیرتِ عشق اے معاذاللہ
اک دم بے وفائیاں، توبہ
شبنم آلود وہ حسیں آنکھیں
رُخ پہ اڑتی ہوائیاں، توبہ
اسکی غم التفاتیاں ہائے ہائے
اپنی بے اعتنائیاں، توبہ
سرِ سودا کی سورشیں پیہم
ہر طرف جگ ہنسائیاں، توبہ
رفتہ رفتہ وہ بے پناہ سکوت
سب سے آشنائیاں، توبہ
موت سے ہر نفس وہ راز و نیاز
موت کی ہم نوائیاں، توبہ
ناگہاں آمد آمد محبوب
غم کی بے انتہائیاں، توبہ
یک بیک آنکھ چار ہو جانا
دیر تک رُو نمائیاں، توبہ
نظروں نظروں میں سرگزشتِ فراق
دونوں جانب دہائیاں، توبہ
پھر وہی چشمِ مست و جام بدست
پھر وہی نغمہ ضیائیاں، توبہ
پھر وہی لب وہی تبسم ناز
پھر وہی کج ادائیاں، توبہ
پھر وہ اک بے خودی کے عالم میں
مل کے باہم جدائیاں، توبہ
ہجوم مے اور جنابِ جگر
پی پلا کر برائیاں، توبہ
تیری نازک کلائیاں، توبہ
کیا کریں بندگانِ محبوبی
عاشقی کی خدائیاں، توبہ
منزلِ عشق اے خدا کی پناہ
ہر قدم کربلائیاں، توبہ
یاد و ایام و شوق و عشق و جنوں
چراغ کی فتنہ ضیائیاں، توبہ
لطفِ بے گانگی، معاذ اللہ
ان کی سادہ ادائیاں، توبہ
حسن میں رقص کا سا اک عالم
شوق کی نے نوائیاں، توبہ
ہائے غمازیاں نگاہوں کی
اپنی بے دست و پائیاں، توبہ
اف وہ احساسِ حسن پہلے پہلے
یک بیک کج ادائیاں، توبہ
اللہ اللہ عشق کی وہ جھجک
حسن کی کہربائیاں، توبہ
اس کے دامن پہ دل کا جا پڑنا
ہم سے یہ بے وفائیاں، توبہ
غیض سے ابروؤں پہ یہ شکنیں
دل پہ زور آزمائیاں، توبہ
آستینوں کا وہ چڑھا لینا
گوری گوری کلائیاں، توبہ
نظروں نظروں میں خواہش سربزم
دل ہی دل میں لڑائیاں، توبہ
سوزِ غم کی شکایتیں ہائے ہائے
دردِ دل کی دہائیاں، توبہ
برملا سخت رنجشیں باہم
غائبانہ صفائیاں، توبہ
اپنے مطلب سے عشق کی چھیڑیں
ظاہری بے وفائیاں، توبہ
حسن و توہینِ عشق ہائے، غضب
اپنی وہ خود ستائیاں، توبہ
غیرتِ عشق اے معاذاللہ
اک دم بے وفائیاں، توبہ
شبنم آلود وہ حسیں آنکھیں
رُخ پہ اڑتی ہوائیاں، توبہ
اسکی غم التفاتیاں ہائے ہائے
اپنی بے اعتنائیاں، توبہ
سرِ سودا کی سورشیں پیہم
ہر طرف جگ ہنسائیاں، توبہ
رفتہ رفتہ وہ بے پناہ سکوت
سب سے آشنائیاں، توبہ
موت سے ہر نفس وہ راز و نیاز
موت کی ہم نوائیاں، توبہ
ناگہاں آمد آمد محبوب
غم کی بے انتہائیاں، توبہ
یک بیک آنکھ چار ہو جانا
دیر تک رُو نمائیاں، توبہ
نظروں نظروں میں سرگزشتِ فراق
دونوں جانب دہائیاں، توبہ
پھر وہی چشمِ مست و جام بدست
پھر وہی نغمہ ضیائیاں، توبہ
پھر وہی لب وہی تبسم ناز
پھر وہی کج ادائیاں، توبہ
پھر وہ اک بے خودی کے عالم میں
مل کے باہم جدائیاں، توبہ
ہجوم مے اور جنابِ جگر
پی پلا کر برائیاں، توبہ
جگر مراد آبادی
No comments:
Post a Comment