Monday, 17 November 2014

جب لگے زخم تو قاتل کو دعا دی جائے

جب لگے زخم تو قاتل کو دعا دی جائے
 ہے یہی رسم، تو یہ رسم اٹھا دی جائے
تشنگی کچھ تو بجھے تشنہ لب غم کی
اک ندی درد کے شہروں میں بہا دی جائے
دل کا وہ حال ہوا ہے غمِ دوراں کے تلے
جیسے اک لاش چٹانوں میں دبا دی جائے
ہم نے انسانوں کے دکھ درد کا حل ڈھونڈ لیا ہے
کیا برا ہے جو یہ افواہ اڑا دی جائے
ہم کو گزری ہوئی صدیاں تو نہ پہچانیں گی
آنے والے کسی لمحے کو صدا دی جائے
پھول بن جاتی ہیں دہکتے ہوئے شعلے کی لویں
شرط یہ ہے کہ انہیں خوب ہوا دی جائے
کم نہیں نشے میں جاڑے کی گلابی راتیں
اور اگر تیری جوانی بھی ملا دی جائے
ہم سے پوچھو غزل کیا ہے غزل کا فن کیا ہے
چند لفظوں میں کوئی آہ چھپا دی جائے 

جاں نثار اختر

No comments:

Post a Comment