Saturday, 1 November 2014

کانچ کے گھر میں اک مچھلی کا رنگ مرے خوابوں جیسا

کانچ کے گھر میں اک مچھلی کا رنگ مرے خوابوں جیسا
کن لہروں پر بہتا تھا میں، کس ساحل پر قید ہوا
میں نے دیکھا ان آنکھوں میں بادل تیرتے رہتے تھے
میں نے جانا اس نے بھی پڑھ لی ہے ہاتوں کی ریکھا
اک ذرے کو الٹا پلٹا، اس میں شہر تھے، صحرا بھی
اک لمحے کی جیب ٹٹولی، سرمایہ تھا صدیوں کا
سچی بات ہے جینے کا فن کوئی تجھ سے جا کر سیکھے
اس دن دل ہی بھر آیا تھا، ورنہ تجھ سے شکوہ کیا
یہ آنسو بی پی لوں گا میں ان پلکوں کو چوم تو لوں
اب مجھ کو اپنا کہتی ہو، میں پہلے بھی غیر نہیں تھا

مصحف اقبال توصیفی

No comments:

Post a Comment