کاٹی ہے کیسے صبح کہاں شام، بھول جائیں
ٹھہریں کہیں یہ گردش بے نام بھول جائیں
پلکوں پہ آ سجا لیں سبھی خار پاؤں کے
کیوں چلتے چلتے ہونے لگی شام بھول جائیں
بہتی ہواؤں پر نئے نوحے لکھا کریں
کھل جائیں پانیوں میں جزیروں کی کھڑکیاں
تجھ سے ملیں تو روح کا کہرام بھول جائیں
یہ بھی نہ کر سکے کہ کوئی شغل ڈھونڈ لیں
اتنا نہ ہو سکا کہ تیرا نام بھول جائیں
مصحف اقبال توصیفی
No comments:
Post a Comment