اب کسی کو دیکھ کر اک سمت مڑ جاتے ہیں ہم
جس سے ملنا چاہتے ہیں، اس سے کتراتے ہیں ہم
یہ نمی آنکھوں کی، سینے کی جلن، جاتی نہیں
تیری محفل میں بھی تنہائی سے گھبراتے ہیں ہم
لوگ تجھ کو بے وفا کہتے ہیں ان سے کیا گلہ
کیوں زمانے بھر کی خوشیوں سے ہے کوئی غم عزیز
آئینے کے پاس آؤ تم کو سمجھاتے ہیں ہم
مڑ کے دیکھا تھا تو سارا شہر پتھر ہو گیا
لوٹ کر آئے تو ہر پتھر سے ٹکراتے ہیں ہم
مصحف اقبال توصیفی
No comments:
Post a Comment