Saturday, 1 November 2014

اب کسی کو دیکھ کر اک سمت مڑ جاتے ہیں ہم

اب کسی کو دیکھ کر اک سمت مڑ جاتے ہیں ہم
جس سے ملنا چاہتے ہیں، اس سے کتراتے ہیں ہم
یہ نمی آنکھوں کی، سینے کی جلن، جاتی نہیں
تیری محفل میں بھی تنہائی سے گھبراتے ہیں ہم
لوگ تجھ کو بے وفا کہتے ہیں ان سے کیا گلہ
رنگِ دنیا دیکھ کر خاموش ہو جاتے ہیں ہم
کیوں زمانے بھر کی خوشیوں سے ہے کوئی غم عزیز
آئینے کے پاس آؤ تم کو سمجھاتے ہیں ہم
مڑ کے دیکھا تھا تو سارا شہر پتھر ہو گیا
لوٹ کر آئے تو ہر پتھر سے ٹکراتے ہیں ہم

مصحف اقبال توصیفی

No comments:

Post a Comment