Saturday, 1 November 2014

چاند نے اپنا دیپ جلایا، شام بجھی ویرانے میں

چاند نے اپنا دیپ جلایا، شام بُجھی ویرانے میں
اُس کی بستی دُور ہے شاید، دیر ہے اُس کے آنے میں
کیا پتھر کی بھاری سِل ہے، ایک اک لمحہ ماضی کا
دیکھو دب کر رہ جاؤ گے اتنا بوجھ اُٹھانے میں
اُس کو نہیں دیکھا ہے جس نے مجھ کو بَھلا کیا سمجھے گا
اُن آنکھوں سے گزرنا ہو گا میرے دل تک آنے میں
اپنی ذات سے کچھ نسبت تھی، وہ بھی اُس کی خاطر سے
میرا ذکر نہیں ملتا ہے اب میرے افسانے میں
ایک ہی دُکھ تھا میرا اپنا، وہ بھی اُس کو سونپ دیا
آخر دل کی بات زباں تک آ ہی گئی انجانے میں
میری راتوں میں مہکے ہیں جو سپنوں کی ڈالی سے
رنگ ہے اُن پھولوں کا شامل آج ترے شرمانے میں
اب تو تم بھی جان گئی ہو، تم کو کیا سُکھ ملتا تھا
میرے گھر کے کام میں میری ماں کا ہات بٹانے میں
جس سے بات بھی کرنی مشکل، وہ بھی اُس محفل میں ہو گی
مصحفؔ کیسا لطف رہے گا اُس کو شعر سُنانے میں

مصحف اقبال توصیفی

No comments:

Post a Comment