وہ تِری ہمسائیگی تھی، میں نہ تھا
اک ندی تھی، تشنگی تھی میں نہ تھا
میں نے تجھ کو چھو کے دیکھا تو نہ تھی
جانے تو کیا کہہ رہی تھی، میں نہ تھا
تو نہیں تھی، حسن کا سایہ تھا وہ
آنکھ کی دیوار سی تھی، میں نہ تھا
رات بے بس رات، بستر پر مِرے
کروٹیں لیتی رہی تھی، میں نہ تھا
لے گئی مجھ کو کہاں شامِ فراق
وصل کی شب آ گئی تھی، میں نہ تھا
آگ سی اک آگ تھی میرا وجود
روشنی ہی روشنی تھی، میں نہ تھا
آئینے میں ہنس رہا تھا میرا عکس
میز پر تصویر بھی تھی، میں نہ تھا
اک ندی تھی، تشنگی تھی میں نہ تھا
میں نے تجھ کو چھو کے دیکھا تو نہ تھی
جانے تو کیا کہہ رہی تھی، میں نہ تھا
تو نہیں تھی، حسن کا سایہ تھا وہ
آنکھ کی دیوار سی تھی، میں نہ تھا
رات بے بس رات، بستر پر مِرے
کروٹیں لیتی رہی تھی، میں نہ تھا
لے گئی مجھ کو کہاں شامِ فراق
وصل کی شب آ گئی تھی، میں نہ تھا
آگ سی اک آگ تھی میرا وجود
روشنی ہی روشنی تھی، میں نہ تھا
آئینے میں ہنس رہا تھا میرا عکس
میز پر تصویر بھی تھی، میں نہ تھا
مصحف اقبال توصیفی
No comments:
Post a Comment