Friday, 1 January 2016

ریت سے بت نہ بنا اے میرے اچھے فنکار

ریت سے بت نہ بنا اے میرے اچھے فنکار 

اک لمحہ کو ٹھہر میں تجھے پتھر لا دوں 
میں تیرے سامنے انبار لگا دوں، لیکن 
کون سے رنگ کا پتھر تیرے کام آئے گا 
سرخ پتھر جسے دل کہتی ہے بے دل دنیا 
یا وہ پتھرائی ہوئی آنکھ کا نیل پتھر 
جس میں صدیوں کے تحیر کے پڑے ہوں ڈورے 


کیا تجھے روح کے پتھر کی ضرورت ہو گی 
جس پر حق بات بھی پتھر کی طرح گرتی ہے 
اک وہ پتھر ہے جو کہلاتا ہے تہذیبِ سفید 
اس کے مرمر میں سیاہ خوں جھلک جاتا ہے 
اک انصاف کا پتھر بھی تو ہوتا ہے مگر 
ہاتھ میں تیشۂ زر ہو تو وہ ہاتھ آتا ہے 

جتنے معیار ہیں اس دور کے سب پتھر ہیں 
شعر بھی رقص بھی تصویر و غنا بھی پتھر 
میرے الہام تیرا ذہنِ رسا بھی پتھر 
اس زمانے میں ہر فن کا نشان پتھر ہے 
ہاتھ پتھر ہیں تیرے میری زبان پتھر ہے 

ریت سے بت نہ بنا اے میرے اچھے فنکار

احمد ندیم قاسمی

No comments:

Post a Comment