دل ہمارا جلتے جلتے گھُل گیا
اَور آخر خاک میں مل جُل گیا
دے گئی امید بھی داغِ فراق
جو اثاثہ پاس تھا، وہ کُل گیا
ڈالتے ہیں ہاتھ اچھی شے پہ لوگ
چاہ رخصت ہو گئی اے دوست آہ
جو ملاتا تھا ہمیں، وہ پُل گیا
پھول کے مانند کوئی لالہ فام
پیار کی پہلی نظر میں تُل گیا
گو ہمارے گھر وہ چپ چاپ آئے تھے
اِس گلی سے اُس گلی تک غُل گیا
جب جہاں سے جائے گا انور شعورؔ
'سب کہیں گے 'باغ سے بُلبُل گیا
انور شعور
No comments:
Post a Comment