ہے مجھ سے ہی ڈرتا ہوا کردار مِرے پاس
یوں تو کوئی خنجر ہے نہ تلوار مِرے پاس
مصروف ہمیشہ ہی سنبهلنے میں رہ گیا
کچھ غم کی زیادہ رہی مقدار مِرے پاس
منزل کا پتہ راستے دیتے ہیں مجهے خود
میں اپنی ندامت کو نمایاں نہیں کرتا
سینے میں کئی دفن ہیں آزار مِرے پاس
جو رنج و الم رنگ و بُو کے ساتھ بدل جائیں
ایسے ہیں کئی بزم میں کردار مِرے پاس
تم آؤ تو پلکوں پہ تمہیں اپنی بٹهاؤں
اتنا ہے ابهی جذبۂ ایثار مِرے پاس
میں اس کو چهپاتا ہوں کہ اس درد نے میرے
رکها ہے چهپا کر دلِ افگار مِرے پاس
میں عہدِ گزشتہ کی نمائش نہیں کرتا
بیتے ہوئے لمحوں کا ہے انبار مِرے پاس
بس تیری پناہوں میں خدا، خود کو دیا ہے
رہتا ہے بڑا کوئی گنہ گار مِرے پاس
جاوید حیات
No comments:
Post a Comment