دھوپ کی شدت میں ہر نخلِ تمنا جل گیا
شہر صحرا بن گیا صحرا میں صحرا جل گیا
موت مجھ کو جشن کی صورت میں آتی کس طرح
میں چراغِ رہ گزر، تنہا تھا، تنہا جل گیا
روشنی خنجر بنی ہے میرے دل کے واسطے
بارہا چشمِ تماشا میں جو روشن ہو گئی
دیکھنا اس آگ میں کیا کچھ رہا، کیا جل گیا
زندگی میرے لیے احمد ظفرؔ الزام ہے
دامنِ دل کیا جلا، دامانِ دنیا جل گیا
احمد ظفر
No comments:
Post a Comment