Sunday, 16 October 2016

زرہ صبر سے پیکان ستم کھینچتے ہیں

زرۂ صبر سے پیکانِ ستم کھینچتے ہیں
ایک منظر ہے کہ ہم دم ہمہ دم کھینچتے ہیں
شہر کے لوگ تو اب بھی یہ سمجھتے ہیں کہ مہر
ان لکیروں سے عبارت ہے جو ہم کھینچتے ہیں 
حکم ہوتا ہے تو سجدے میں جھکا دیتے ہیں سر
اذن ملتا ہے تو شمشیرِ دودم کھینچتے ہیں
ان ہی رستوں میں انہی خوں سے بھری گلیوں میں
کوئی دن اور کہ ہم لاشۂ جم کھینچتے ہیں
آشیانوں کو پلٹتے ہوئے طائر سرِ شام
لوحِ امید پہ نقشِ غمِ وہم کھینچتے ہیں
ہم فقیروں کو تو بس نامِ خدا کافی ہے
ہم کہاں منتِ اربابِ حشم کھینچتے ہیں
جن کو رفتار خوش آتی ہو وہ جائیں آگے
ہم لگامِ فرسِ تیز قدم کھینچتے ہیں
ابو طالب ہی کے بیٹوں کی روایت ہے کہ خیر
جب بھی نرغے میں ہو شمشیرِ دودم کھینچتے ہیں

افتخار عارف

No comments:

Post a Comment