ہجر اثاثہ رہ جاتا ہے
ہاتھ میں کاسہ رہ جاتا ہے
جب امید نہ باقی ہو تو
صرف دلاسہ رہ جاتا ہے
زخم بہت سے مل جاتے ہیں
دل سے درد نکل کر بھی تو
اچھا خاصا رہ جاتا ہے
موجیں جب بھی چھو کر گزریں
ساحل پیاسا رہ جاتا ہے
ایک شناسائی کی دُھن میں
دکھ ہی شناسا رہ جاتا ہے
وقت بھلا دیتا ہے سب کچھ
ایک خلاصہ رہ جاتا ہے
نجمہ شاہین کھوسہ
No comments:
Post a Comment