Monday, 2 January 2017

ہجر اثاثہ رہ جاتا ہے

ہجر اثاثہ رہ جاتا ہے 
ہاتھ میں کاسہ رہ جاتا ہے
جب امید نہ باقی ہو تو
صرف دلاسہ رہ جاتا ہے
زخم بہت سے مل جاتے ہیں
وقت زرا سا رہ جاتا ہے
دل سے درد نکل کر بھی تو
اچھا خاصا رہ جاتا ہے
موجیں جب بھی چھو کر گزریں
ساحل پیاسا رہ جاتا ہے
ایک شناسائی کی دُھن میں
دکھ ہی شناسا رہ جاتا ہے
وقت بھلا دیتا ہے سب کچھ
ایک خلاصہ رہ جاتا ہے

نجمہ شاہین کھوسہ

No comments:

Post a Comment