Monday, 2 January 2017

گر کیجے رقم کچھ تری وحدت کے بیاں کا

گر کیجے رقم کچھ تِری وحدت کے بیاں کا
تو چاہیے خامہ بھی اسی ایک زباں کا
تُو ہے تو مِری جان و دل و جسم ہے ورنہ
کیسا یہ دل اور کیسا یہ جی اور میں کہاں کا
رکھتے ہیں نہ کچھ نام ہی اپنا نہ نشان ہم
کیا نام و نشان پوچھو ہو بے نام و نشاں کا
اس بات کو ٹک سن کہ جہاں کا نہ ہو اثبات
کیا دل میں بھروسا کرے پھر کوئی دہاں کا
مت دست ہوس کو تو جھکا لینے کو اس کے
ماٹی سے سب آلود ہے اسباب جہاں کا
سربستہ رہا یوں ہی یہ رازِ حرم و دیر
معلوم ہوا بھید نہ یاں کا نہ وہاں کا
بے گانہ ہے یاں کون اور اپنا ہے یہاں کون
ہے سب یہ بکھیڑا مِرے ہی وہم و گماں کا
جس عالمِ ہستی کو سمجھتے تھے بہار آہ
آخر کو جو دیکھا تو وہ موسم تھا خزاں کا
سچ کیوں نہ کہیں ہم تو مسلمان ہیں اے شیخ
رہتا ہے یہاں نامِ خدا ذکر بتاں کا
مرضی ہو جہاں اس کی وہی جا ہمیں بہتر
مشتاق دل اپنا نہیں کچھ باغِ جناں کا
سر دیوے گا جس دم تو حسن تیغ کو اس کی
اسرار کھلے گا تبھی اس سرِ نہاں کا

میر حسن دہلوی

No comments:

Post a Comment