Monday, 2 January 2017

چار جانب شام ہے یا گردش ایام ہے

چار جانب شام ہے یا گردشِ ایام ہے
پھول، خوشبو اور تارہ زندگی کا نام ہے
پھول ہے گم ذات میں، خوشبو گھری حالات میں 
ہجر کا لمحہ ہی بس اب عشق کا انعام ہے
زندگی خیرات میں لی، موت کی اب التجا 
وہ مِرا آغاز تھا، اور یہ مرا انجام ہے
میں بہت خوش ہوں کہ دامن میں خوشی کوئی نہیں
کامیابی تو یہی ہے زندگی ناکام ہے
نفرتوں کی بارشیں، سب بہ چکی ہیں خواہشیں
درد کا طوفان ہے اور ہر طرف کہرام ہے
عشق تیری راہ کے سب منفرد ہیں سلسلے
دام میں آیا ہوا پنچھی یہاں بے دام ہے
زندگی کے کھیل کا شاہیؔن عجب انجام ہے 
حسرتوں کی لاش ہے، اشکوں بھری اک شام ہے

نجمہ شاہین کھوسہ

No comments:

Post a Comment