جانے والوں کا سفر پیشِ نظر ہے کہ نہیں
سب یہیں چھوڑ کے جانا ہے خبر ہے کہ نہیں
ایسی دستار کا کیا فائدہ ہے،۔ تم ہی بتاؤ
دیکھتے رہتے ہو ہر وقت کہ سر ہے کہ نہیں
جس کو دیکھو وہ جدائی سے ڈراتا ہے مجھے
شاعری کرتے مگر دیکھ تو لیتے پہلے
دردِ دل ہے کہ نہیں، زخمِ جگر ہے کہ نہیں
لیاقت علی عاصم
No comments:
Post a Comment