Sunday, 1 January 2017

خزاں کی رت میں‌ بھی نقش بہار باقی ہے

خزاں کی رُت میں‌ بھی نقشِ بہار باقی ہے
کہ ایک پھول سرِ شاخسار باقی ہے
تِرے فریب کا جادو ابھی نہیں ٹوٹا
ابھی تو تجھ پہ مِرا اعتبار باقی ہے
گھروں کو لوٹ گئے لوگ شام ڈھلتے ہی
بس ایک شخص سرِ رہگزار باقی ہے
ندی سے چاند نے سرگوشیوں میں پوچھ لیا
اب اور کتنی شبِ انتظار باقی ہے
جبینِ سنگ پہ دو نام کس نے لکھے ہیں
یہ کیسا نقش سرِ کوہسار باقی ہے
وہ قافلہ تو کبھی کا چلا گیا ہے مگر
نظر کے سامنے اب تک غبار باقی ہے
میں مر گیا ہوں وفا کے محاذ پر عامرؔ
پسِ شکست بھی میرا وقار باقی ہے

مقبول عامر

1 comment: