رات بیٹھا تھا میرے پاس خیالوں میں کوئی
انگلیاں پھیر رہا تھا میرے بالوں میں کوئی
دیدۂ تر نے بڑی دیر میں پہچانا اسے
روپ کھو بیٹھا ہے دو چار ہی سالوں میں کوئی
غمزدہ شب کی گلو گیر ہوا کہتی ہے
میں شب شہر میں تھا اور ادھر گاؤں میں
جلتی شمعیں لیے پِھرتا رہا گالوں میں کوئی
ہم اندھیروں کے مکیں ان کو نظر آ نہ سکے
کس قدر محو رہا اپنے اجالوں میں کوئی
ہجر نے اتنا ستایا ہے کہ جی چاہتا ہے
کاش مل جاۓ تیرے چاہنے والوں میں کوئی
مقبول عامر
No comments:
Post a Comment