Sunday, 1 January 2017

رات بیٹھا تھا میرے پاس خیالوں میں کوئی

رات بیٹھا تھا میرے پاس خیالوں میں کوئی
انگلیاں پھیر رہا تھا میرے بالوں میں کوئی
دیدۂ تر نے بڑی دیر میں پہچانا اسے
روپ کھو بیٹھا ہے دو چار ہی سالوں میں کوئی
غمزدہ شب کی گلو گیر ہوا کہتی ہے
یاد کرتا ہے مجھے چاہنے والوں میں کوئی
میں شب شہر میں تھا اور ادھر گاؤں میں
جلتی شمعیں لیے پِھرتا رہا گالوں میں کوئی
ہم اندھیروں کے مکیں ان کو نظر آ نہ سکے
کس قدر محو رہا اپنے اجالوں میں کوئی
ہجر نے اتنا ستایا ہے کہ جی چاہتا ہے
کاش مل جاۓ تیرے چاہنے والوں میں کوئی

مقبول عامر

No comments:

Post a Comment