Thursday, 2 July 2020

شوق سے اس کی گلی میں جاؤ تو

شوق سے اس کی گلی میں جاؤ تو
حضرتِ دل! ہو گیا "پتھراؤ" تو
حرمتِ مے بے پیۓ، سمجھاؤ تو
شیخ صاحب! مے کدے میں آؤ تو
ڈھونڈنی ہے اپنی قسمت کی لکیر
ہم بھی دیکھیں، ہاتھ ادھر تم لاؤ تو
دو گھڑی کی بات ہے، تکرار کیا
دو گھڑی کو تم مِرے گھر آؤ تو
ہو ہی جائیں گے وہ آخر مہرباں
باتوں باتوں میں انہیں بہلاؤ تو
پھر چلا لینا "نظر کے تیر" تم
دل کے بھر لینے دو پہلے گھاؤ تو
شوخیوں سے، ناز سے، انداز سے
ہم بہک جائیں گے، تم بہکاؤ تو
گفتگو میں پیار کے دو بول تھے
پھر "وہی فقرہ" ذرا دہراؤ تو
چل نہ دیں دیوارِ زنداں توڑ کر
وحشیوں کو بیڑیاں پہناؤ تو
میری قسمت کے نکل جائیں گے بَل
اپنی زلفوں کو ذرا سلجھاؤ تو
جا رہا ہے وہ جنازہ عشق کا
مار ڈالا ہے جسے، دفناؤ تو
جا رہا ہوں میں نصیر ان کی طرف
درمیاں میں پڑ گئے "الجھاؤ" تو

سید نصیرالدین نصیر

No comments:

Post a Comment