موت ایک سلسلۂ وہم و گماں آج کی رات
زندگی "ولولۂ عزمِ جواں" آج کی رات
کہکشاں پھر سے ہوئی جلوہ فشاں آج کی رات
عالمِ پیر بھی ہوتا ہے "جواں" آج کی رات
خونِ تازہ رگِ ہستی میں "رواں" آج کی رات
وقت کی دست جنوں میں ہے حنا، آج کی رات
مژدۂ دل💓، کہ ہوئے خاک بسر اہلِ ہوس
عشق ہے با علم و طبل و نشاں آج کی رات
اپنی فطرت سے ہے مجبور "ہنومان" کی قوم
مرغزاروں سے بھی اٹھتا ہے دھواں آج کی رات
ارضِ کشمیر کے "جانباز" جوانوں کو سلام
رشکِ فردوس ہے وادی کا سماں آج کی رات
سرخرو ملتِ بیضا کو کِیا ہے تم نے
محوِ حیرت ہوئیں اقوامِ جہاں آج کی رات
وقت نے دی ہے تمہیں چارہ گری کی مہلت
آج کی رات مسیحا نہ فساں آج کی رات
نوابزادہ نصراللہ خاں ناصر
No comments:
Post a Comment