اشکِ ناداں سے کہو بعد میں پچھتائیں گے
آپ گر کر میری آنکھوں سے کدھر جائیں گے
اپنے لفظوں کو تکلم سے گرا کر جانا
اپنے لہجے کی تھکاوٹ میں بکھر جائیں گے
تم سے لے جائیں گے ہم چھین کے وعدے اپنے
اک تیرا گھر تھا میری حدِ مسافت،۔ لیکن
اب یہ سوچا ہے کہ ہم حد سے گزر جائیں گے
اپنے افکار" جلا" ڈالیں گے کاغذ، کاغذ
سوچ مر جاۓ گی تو ہم آپ بھی مر جائیں گے
اِس سے پہلے کہ جدائی کی خبر تم سے ملے
ہم نے سوچا ہے کہ ہم تم سے بچھڑ جائیں گے
خلیل الرحمان قمر
دلسوز
ReplyDelete