دھوپ کا عکس کڑی دھوپ سے بڑھ کر نکلا
میں جسے آئینہ سمجھا تھا، وہ پتھر نکلا
لوگ دکھ درد بھی تنہا نہیں سہنے دیتے
میرے گھر میں جو تماشا تھا وہ گھر گھر نکلا
دیکھ کر چاند تلاطم ہے بپا سینے میں
اس کی یادوں سے بڑی معرکہ آرائی ہوئی
پھر کہیں جا کے مِرے دل سے وہ پیکر نکلا
اس نے دستار کو بھی کاسہ بنا رکھا ہے
میں جسے شاہ سمجھتا تھا گداگر نکلا
منکشف ہونے لگا سرِ نہاں بھی مجھ پر
جونہی سینے سے مِرے وہم کا خنجر نکلا
ایک دن خود سے تقابل کیا میں نے اپنا
میرے اندر کا جو انسان تھا، بہتر نکلا
خود پسندی کا نشہ ایسا نشہ ہے احمد
میں نے جس جس کو بھی دیکھا وہی خوگر نکلا
احمد ساقی
No comments:
Post a Comment