Monday, 3 August 2020

کئی پڑے ہیں فریبی حصار شیشے میں

کئی پڑے ہیں فریبی حصار شیشے میں
اٹھا کے سنگِ گراں کوئی مار شیشے میں
جہانِ تازہ کی تسخیر بعد میں کرنا
تو اپنے دل کو تو پہلے اتار شیشے میں
یہ کس کا عکس فروزاں ہے بر دلِ درویش
دھمال کرنے لگی ہے بہار شیشے میں
کبھی تو آ، دلِ مجذوب کی تسلی کو
مزید بڑھنے لگا انتظار شیشے میں
تو خود کو کھوج ذرا، اور آئینے میں دیکھ
پڑے ہیں عیب تِرے بے شمار شیشے میں
اگرچہ پشت کیے بیٹھا تھا مِری جانب
وہ دیکھتا تھا مجھے بار بار شیشے میں
پرانے خال و خد اپنے نکھارتے ہوئے وہ
ہزار بار ہوا اشک بار شیشے میں
سنور رہا تھا مقابل تھے آئینے اور میں
مجھے بھی اس نے کیا تھا شمار شیشے میں
بس ایک شخص ہے احمد جو مجھ کو جانتا ہے
میں دیکھتا ہوں اسے غمگسار شیشے میں

احمد ساقی

No comments:

Post a Comment