Monday, 3 August 2020

میں نے جب اس سے کہا دیکھ ذرا پانی میں

'میں نے جب اس سے کہا 'دیکھ ذرا پانی میں
اک گل تازہ کنول کھلنے لگا پانی میں
کاغذی کشتی پہ اک خواب رکھا، ایک دِیا
اور اک اسم پڑھا، چھوڑ دیا پانی میں
ایک درویش سرِ آبِ رواں گزرا تھا
آج تک ڈھونڈ رہا ہوں کفِ پا پانی میں
پہلے میں چلتا رہا، دیر تلک چلتا رہا
پھر مِرا اشک گِرا پھر میں گِرا پانی میں
سر پٹختے ہوئے دریا کو جو دیکھا تو لگا
کوئی آسیب ہے، یا کوئی بلا پانی میں
ایک سیلاب امڈ آیا تِری یادوں کا
اور میں دیر تلک بہتا رہا پانی میں
ایسے روشن ہے مِری آنکھ میں اک خواب حسیں
جھلملاتا ہو کوئی جیسے دِیا پانی میں
میں تضادات کے گارے سے بنا ہوں احمد
خاک میں رکھا گیا، آگ ہوا پانی میں

احمد ساقی

No comments:

Post a Comment