Monday, 3 August 2020

تمہارے سامنے اک مرتبہ خدا لے جائے

تمہارے سامنے اک مرتبہ خدا لے جائے
پھر اس کے بعد بلا سے اگر قضا لے جائے
گر آبرو ہی سلامت نہیں بہ مقتلِ زیست
تو پھر یہ کاسۂ سر کوئی کیوں بچا لے جائے
طلا بنایا ہے، خود کو کھپا کے ہجراں میں
جسے ہوس ہو وہ ہم سے سے یہ کیمیا لے جائے
تمہارا سودا اگر سر میں ہے تو میں بھی ہوں
یہ مُشتِ خاک بدن ہے، سو یہ ہوا لے جائے
اب ایسا صاحبِ ساماں بھی کون ہے جو یہاں
سفر پہ نکلے تو گھر سے ہی راستہ لے جائے
سو ہم نے پھینک دی باہر گلی میں یہ دنیا
جسے بھی چاہیے ہو، وہ اسے اٹھا لے جائے

افتخار مغل

No comments:

Post a Comment