Sunday 1 November 2020

محبتوں کے ناچ گھر میں ناچتے تھے دو بشر

 رقصِ حیات


محبتوں کے ناچ گھر میں ناچتے تھے دو بشر

تھام کر ہاتھوں میں ہاتھ، پیر اٹھتے ساتھ ساتھ

اک حسینہ پھول سی، اک دیوانہ شوخ سا

زندگی کے *والٹز کی دھن بج رہی تھی شان سے

کیسی تھی مدھر مدھر

اڑ رہے تھے چار سو، ان گنت گلابی سر

تھرکتے تھے دو بدن، ہو رہا تھا جنتوں میں روح کا حسیں ملن

دم بدم، قدم قدم، دل میں تھا نہ کوئی غم

دھیرے دھیرے محوِ رقص، جیسے ہوں دو ہنس راج

ہنستے ڈولتے ہوئے، ناچتے بر سطحِ آب

کیسی خوشیاں ناچتی تھیں اک رخِ ماہتاب پر

اتنے تھے قریب دونوں جیسے ہوں وہ اک وجود

ماسوا ان دونوں کے کوئی نہ ہو وہاں موجود

ڈال کر بازو کمر میں کھینچتا جب پیار سے

سانس روک لیتی وہ اپنا دیکھ کر دلار سے

قربتیں تھیں بے پناہ، فاصلہ کوئی نہ تھا

پیار کا بپھرا سمندر، کیسا ٹھاٹھیں مارتا

خون میں مچتی دھمال

عشق کا بہتا سیال

گھومتی تھی کائنات

جھومتا تھا پات پات

رقص سرور انگیز تھا

کھلتا دلِ نوخیز تھا

لے کے جادو میں وہ دونوں گم ہوئے اور کھو گئے

ایک دوجے کے ہی بس ہوتے رہے اور ہو گئے

پھر تھما میوزک، کھلی آنکھیں، سحر ٹوٹا

ہاتھ لڑکی کا دیوانے ہاتھ سے چھوٹا

توڑ کر بازوؤں کا دلکش حِصار

جھٹک کے معصوم لڑکی کا پیار

وہ نئی ہم رقص کی جانب بڑھا

ڈانس کا تھا پارٹنر بدل گیا


نیلم احمد بشیر

waltz *

No comments:

Post a Comment