سفر ہو دھوپ کا اور وہ بھی پا پیادہ ہو
کہیں ٹھہرنے کا پھر کس طرح ارادہ ہو
میں اس خیال سے خط کو نہ چھو سکا اب تک
لفافہ کھول کے دیکھوں، ورق نہ سادہ ہو
بس آج وقت پہ سونے کی چاہ ہے مجھ کو
دعا کرو کہ تھکن خوف سے زیادہ ہو
جہانِ ہٰذا میں لگتا ہے ہر قدم مجھ کو
کسی سے لوٹ کے آنے کا جیسے وعدہ ہو
کوئی تو ایسا دکھاؤ فلک مزاجوں میں
مری طرح سے جو خالؔد زمین زادہ ہو
خالد ندیم شانی
No comments:
Post a Comment