Wednesday, 2 December 2020

دکھ نہیں سکھ نہیں آرام نہیں ہے کوئی

 دکھ نہیں سکھ نہیں آرام نہیں ہے کوئی

وائے وحشت کہ مجھے کام نہیں ہے کوئی

ایک مدت سے پکارا نہیں تم نے مجھ کو

ایسا لگتا ہے مرا نام نہیں ہے کوئی

بس اسی بات پہ اکتایا ہوا پھرتا ہوں

تم ہو مصروف مجھے کام نہیں ہے کوئی

وہ بھی دن تھے کہ دم ِ صبح چلے آتے تھے دوست

یہ بھی دن ہے کہ سرِ شام نہیں ہے کوئی

رات کے شہر میں اک چاند کا گھر ہے روشن

دکھ تو یہ ہے کہ لبِ بام نہیں ہے کوئی

ختم ہو جائے ذرا چائے تو پھر چلتے ہیں

اس ملاقات کا انجام نہیں ہے کوئی

مری آواز میں ممکن ہے خلل ہو عاصم

مری فریاد میں ابہام نہیں ہے کوئی


لیاقت علی عاصم

No comments:

Post a Comment