دکھ نہیں سکھ نہیں آرام نہیں ہے کوئی
وائے وحشت کہ مجھے کام نہیں ہے کوئی
ایک مدت سے پکارا نہیں تم نے مجھ کو
ایسا لگتا ہے مرا نام نہیں ہے کوئی
بس اسی بات پہ اکتایا ہوا پھرتا ہوں
تم ہو مصروف مجھے کام نہیں ہے کوئی
وہ بھی دن تھے کہ دم ِ صبح چلے آتے تھے دوست
یہ بھی دن ہے کہ سرِ شام نہیں ہے کوئی
رات کے شہر میں اک چاند کا گھر ہے روشن
دکھ تو یہ ہے کہ لبِ بام نہیں ہے کوئی
ختم ہو جائے ذرا چائے تو پھر چلتے ہیں
اس ملاقات کا انجام نہیں ہے کوئی
مری آواز میں ممکن ہے خلل ہو عاصم
مری فریاد میں ابہام نہیں ہے کوئی
لیاقت علی عاصم
No comments:
Post a Comment