Wednesday, 2 December 2020

جدھر جاتے ہیں سب جانا ادھر اچھا نہیں لگتا

 جدھر جاتے ہیں سب جانا ادھر اچھا نہیں لگتا

مجھے پامال رستوں کا سفر اچھا نہیں لگتا

غلط باتوں کو خاموشی سے سننا حامی بھی بھر لینا

بہت ہیں فائدے اس میں، مگر اچھا نہیں لگتا

مجھے دشمن سے بھی خودادری کی امید رہتی ہے

کسی کا بھی ہو سر قدموں میں سر اچھا نہیں لگتا

بلندی پر انہیں مٹی کی خوشبو تک نہیں آتی

یہ وہ شاخیں ہیں جن کو اب شجر اچھا نہیں لگتا

یہ کیوں باقی رہے آتش زنو! یہ بھی جلا ڈالو

کہ سب بے گھر ہوں اور میرا ہو گھر اچھا نہیں لگتا


جاوید اختر

No comments:

Post a Comment