Wednesday, 2 December 2020

بہت قریب ہو تم پھر بھی مجھ سے کتنی دور

بہت قریب ہو تم


 بہت قریب ہو تم پھر بھی مجھ سے کتنی دور

کہ دل کہیں ہے نظر ہے کہیں کہیں تم ہو

وہ جس کو پی نہ سکی میری شعلہ آشامی

وہ کوزۂ شکر و جام🍷 انگبیں تم ہو

مرے مزاج میں آشفتگی صبا کی ہے

ملی کلی کی ادا گل کی تمکنت تم کو

صبا کی گود میں پھر بھی صبا سے بیگانہ

تمام حسن و حقیقت، تمام افسانہ

وفا بھی جس پہ ہے نازاں وہ بے وفا تم ہو

جو کھو گئی ہے مرے دل کی وہ صدا تم ہو

بہت قریب ہو تم پھر بھی مجھ سے کتنی دور

حجابِ جسم ابھی ہے حجابِ روح ابھی

ابھی تو منزل صد مہر و ماہ باقی ہے

حجاب< فاصلہ ہائے نگاہ باقی ہے

وصالِ یار ابھی تک ہے آرزو کا فریب


علی سردار جعفری

No comments:

Post a Comment