احساسِ گماں
اس نے لکھا
مِری شہ رگ سے قریں
قریۂ جاں کی مہارانی
مری محبوب بتا
کتنے سُرخاب کے پر
اور لگاؤ گی تم؟
کتنے آنکھوں کے ہنر اور دکھاؤ گی تم؟
میں کہ خاموش
سرِ صبرِ محبت
کوئی تصویر
کہ ٹھہرا ہوا پانی کوئی
میں کہ جب چاہوں
ستاروں کو
بہاروں کو
پریشاں کر دوں
میں کہ جو خود رخِ مہتاب
کوئی بابِ گماں خیز
کوئی رات کی قندیل
کوئی خواب سا
بن کر اتری
میں کہ جو ابرِ بہارِ گلِ نوخیز ہوئی
کتنی زرخیز، کم آمیز، خوش آویز ہوئی
کیا ہوا؟
کیا ہوا، کیوں تجھے تخفیفِ بیاں لاحق ہے
کیا ہوا، کیوں تجھے احساسِ گماں لاحق ہے
میں حقیقت ہوں
مری جان
حقیقت ہوں میں
تُو کوئی خواب نہیں دیکھ رہا
کوئی مہتاب نہیں دیکھ رہا
میں ہی میں ہوں ترے اطراف میں دیکھ
میں ہی میں ہوں رخِ مہتاب اٹھا
خواب میں دیکھ
میں تری عمر کے اعمال کا پھل ہوں پیارے
میں ترا آج نہیں ہوں، ترا کل ہوں پیارے
راشدہ ماہین
No comments:
Post a Comment