شب گزیدہ
جب اس کے بالوں کا رنگ بدلا
جب اس کی لانبی سیاہ زلفوں میں اتری چاندی
ادھیڑ عمری نے اس کے در پر جو دستکیں دی
تو اس کو میرا خیال آیا
جب اس کو میرا خیال آیا
محبتوں کی بہار آئی
وصال رُت آ گئی تو سمجھا
وہ راز، جو اب بتا رہا ہوں
کہ رات چاہے حسین زلفوں کی تیرگی پر ہی مشتمل ہو
کا ڈھل ہی جانا ہی کارگر ہے
سرشار فقیرزادہ
No comments:
Post a Comment