فضائیں کیفِ بہاراں سے جب مہکتی ہیں
تو دل میں چوٹیں تری یاد کی کسکتی ہیں
شفق کے رنگ بھی ان کا جواب لا نہ سکے
کسی کے چہرے پہ جو سرخیاں دمکتی ہیں
جنہیں تمہارا تبسم ملا ہے وہ نظریں
فضا میں نور کے نغمے بکھیر سکتی ہیں
کبھی کبھی تو ستاروں کے نرم سائے میں
کسی کے جسم کی پرچھائیاں چمکتی ہیں
قدم قدم پہ بچھاتی ہے جال تیرہ شبی
نفس نفس پہ نئی بجلیاں چمکتی ہیں
جہاں وہ آنکھیں مرا انتظار کرتی تھیں
اب ان دریچوں سے مایوسیاں ٹپکتی ہیں
سکوت شب میں ترے انتظار کا عالم
کہ جیسے دور کہیں پائلیں کھنکتی ہیں
انہیں کا نام کہیں مستیٔ بہار نہ ہو
کلی کے سینے میں جو نکہتیں دھڑکتی ہیں
ہو انتظار کسی کا مگر مری نظریں
نہ جانے کیوں تری آمد کی راہ تکتی ہیں
جب ان کے آنے کی امید ہی نہیں ارشد
تو پھر نگاہیں خلاؤں میں کیوں بھٹکتی ہیں
ارشد صدیقی
No comments:
Post a Comment