Tuesday, 1 December 2020

آنچل جو ڈھلکتا ہے ان کا کبھی شانوں سے

 آنچل جو ڈھلکتا ہے ان کا کبھی شانوں سے

پائل کی صدا آ کر ٹکراتی ہے کانوں سے

اپنی ہی ہلاکت کا باعث ہوئے جاتے ہیں

جو تیر نکلتے ہیں آج اپنی کمانوں سے

ہم نے رہِ الفت میں آ کر یہی سیکھا ہے

منزل کا پتہ لینا قدموں کے نشانوں سے

اک بار بھی جو سننا ہم کو نہ گوارا تھا

سو بار سنا ہم نے دنیا کی زبانوں سے

جس نے کبھی دنیا کی پروا ہی نہیں کی تھی

وہ ناز سے ملتا ہے اب لاکھ بہانوں سے


ناز لائلپوری

No comments:

Post a Comment