مجھے معاف کریں حاضرین اب نہیں ہے
کسی کی بات پہ مجھ کو یقین اب نہیں ہے
تری حسین تصاویر تھیں کبھی جس میں
وہ میرے دل پہ چھپا میگزین اب نہیں ہے
وہ نرم لہجہ، نزاکت، وہ بانکپن، وہ خیال
غزل کو چاہیے جیسی زمین اب نہیں ہے
جو آستیں سے سنپولے نکال لیتی تھی
سپیرا بول رہا ہے؛ وہ بِین اب نہیں ہے
ہمیں یہ فکر ہے کردار کیسے نکھرے گا
ہماری ذات پہ وہ نکتہ چین اب نہیں ہے
اگرچہ آئے گئے اور بھی حسیں چہرے
تمہارے جیسا کوئی دلنشین اب نہیں ہے
مِری غزل سے کبھی اکتساب کرتا تھا
سنا ہے بزم میں وہ خوشہ چین اب نہیں ہے
جمیل احمد جمیل
No comments:
Post a Comment