Wednesday 23 December 2020

مجھے معاف کریں حاضرین اب نہیں ہے

 مجھے معاف کریں حاضرین اب نہیں ہے

کسی کی بات پہ مجھ کو یقین اب نہیں ہے

تری حسین تصاویر تھیں کبھی جس میں

وہ میرے دل پہ چھپا میگزین اب نہیں ہے

وہ نرم لہجہ، نزاکت، وہ بانکپن، وہ خیال

غزل کو چاہیے جیسی زمین اب نہیں ہے

جو آستیں سے سنپولے نکال لیتی تھی

سپیرا بول رہا ہے؛ وہ بِین اب نہیں ہے

ہمیں یہ فکر ہے کردار کیسے نکھرے گا

ہماری ذات پہ وہ نکتہ چین اب نہیں ہے

اگرچہ آئے گئے اور بھی حسیں چہرے

تمہارے جیسا کوئی دلنشین اب نہیں ہے

مِری غزل سے کبھی اکتساب کرتا تھا

سنا ہے بزم میں وہ خوشہ چین اب نہیں ہے


جمیل احمد جمیل

No comments:

Post a Comment