Wednesday, 2 December 2020

کھینچوں میں کیا کہ ہر نفس اک تار مرگ ہے

 کھینچوں میں کیا کہ ہر نفس اک تارِ مرگ ہے

یہ زندگی ہے یا کوئی آزارِ مرگ ہے؟

خاکِ بدن سے پَل میں گزرتی ہے یہ بَلا

بجلی⛈ سے تیز قوتِ رفتارِ مرگ ہے

سر پھوڑتا ہے آدمی اپنے وجود سے

اس کے لیے وجود بھی دیوارِ مرگ ہے

میں تو تسلی دے کے نکل آیا جسم کو

لیکن وہ حس جو اب بھی خبردارِ مرگ ہے

یوں زندگی کو سر سے اتارا ہے عشق نے

کارِ حیات جیسے کوئی کارِ مرگ ہے

ہر شخص اپنی زیست پہ الزام دھر چکا

ہر سر پہ آج خلعتِ دستارِ مرگ ہے

ہر روح کھینچتی ہے خلاؤں میں جسم کو

ہر سانس لینے والا طرفدارِ مرگ ہے

اک ایک سانس گن کے عطا کی گئی ہمیں

اک ایک سانس یعنی گرفتارِ مرگ ہے

چہرے کے زرد رنگ میں پنہاں ہے بے دلی

اور بے دلی کا آئینہ اظہارِ مرگ ہے

آنکھوں میں لہلہاتے ہیں آثار زیست کے

سینے پہ دندناتا ہوا بارِ مرگ ہے

آزر بس ایک میں تھا جسے یہ شعور تھا

ورنہ تو کس میں جرأتِ انکارِ مرگ ہے


دلاورعلی آزر

No comments:

Post a Comment