دنیا میں مانتے ہیں کدورت ہے بڑھ گئی
سبقت کی ہر کسی میں، حسرت ہے بڑھ گئی
نفرت کے بیج بونے کی بدعت ہے بڑھ گئی
اپنوں کے درمیاں بھی عداوت ہے بڑھ گئی
ایسا ہے دور آیا کہ شہرت کی ہے طلب
کچھ صبر تو رہا نہیں عجلت ہے بڑھ گئی
تفریق نیک و بد کی نہیں رکھتی نسلِ نو
اب خیر، شر سے آگے یہ شہرت ہے بڑھ گئی
جیسے وبا سے بچنے کو دھوتے ہو ہاتھ تم
دل کو بھی صاف کر لو کہ نفرت ہے بڑھ گئی
جیون میں نفرتیں ہی بڑھاتے ہو جا رہے
نفرت سے دیکھنے کی بھی فطرت ہے بڑھ گئی
کرتے ہیں اجتناب وہ ایسے کبھی کبھی
لوگوں میں فاصلوں کی بھی ہمت ہے بڑھ گئی
دل اپنا گر شفاف ہو بنتی ہے بات حق
نفرت کو دل میں رکھنے کی عادت ہے بڑھ گئی
اکرام الحق
No comments:
Post a Comment