دار و رسن نہ اب کوئی تلوار درج ہے
اک عمر یونہی رہنا گرفتار درج ہے
اندر وہ شور ہے کہ چٹخنے لگا مکاں
دیوار و در پہ خامشی بے کار درج ہے
الفاظ او ر کچھ ہیں معانی کچھ اور ہیں
اقرار کے مقام پر انکار درج ہے
صاحب! یہ میرا نامۂ تقدیر دیکھئے
اک شامِ ہجر اس میں کئی بار درج ہے
چھوٹے سے اک فلیٹ ہی میں عمر کاٹیے
یعنی ہماری قبر "ہوادار" درج ہے
یعنی کہ پہلے سین ہی میں گمشدہ ہوا
ہر داستاں میں یہ مِرا کردار درج ہے
کہنے کو داستاں ہے بہت سادہ سی مگر
اس میں کہیں کہیں کوئی اسرار درج ہے
ہے نقشۂ خیال کہ بازارِ شام ہے
ہر اک مقام پر نئی دیوار درج ہے
یہ زندگی ہے جس کی ہر اک سانس کیلئے
اک کار زار درج ہے، پیکار درج ہے
پہلے ورق پہ امن کی تفسیر ہے شناس
اگلے ورق پہ اور ہی یلغار درج ہے
فہیم شناس کاظمی
No comments:
Post a Comment