فون تو دور وہاں خط بھی نہیں پہنچیں گے
اب کہ یہ لوگ تجھے ایسی جگہ بھیجیں گے
زندگی! دیکھ چکے تجھ کو بڑے پردے پر
آج کے بعد کوئی فلم نہیں دیکھیں گے
مسئلہ یہ ہے میں دشمن کے قرِیں پہنچوں گا
اور کبوتر مِری تلوار پہ آ بیٹھیں گے
ہم کو اک بار کناروں سے نکل جانے دو
پھر تو سیلاب کے پانی کی طرح پھیلیں گے
تُو وہ دریا ہے اگر جلدی نہیں کی تُو نے
خود سمندر تجھے ملنے کے لیے آئیں گے
صیغۂ راز میں رکھیں گے نہیں عشق تِرا
ہم تِرے نام سے خوشبو کی دُکاں کھولیں گے
ضیا مذکور
No comments:
Post a Comment