بدلتی رُت کے لبادے شجر بدلتے ہیں
بہارِ نو میں پرندے بھی پر بدلتے ہیں
سفر جو کٹتا نہیں ہمسفر بدلتے ہیں
قدم قدم پر یہاں راہبر بدلتے ہیں
بدلتی کیوں ہے تکلف کے طور پر تاریخ
بزورِ جبر کب اہلِ نظر بدلتے ہیں
یہ راستے کے اندھیرے بھی چھٹنے والے ہیں
ذرا سی دیر میں شام و سحر بدلتے ہیں
جو ساتھ چلتے ہوئے ڈگمگا گئے چھوڑیں
مگر جو لوگ میانِ سفر بدلتے ہیں
کچھ اپنے اشک بھی شامل کرو دعاؤں میں
سنا ہے اس سے وبا کے اثر بدلتے ہیں
صائمہ نورین
No comments:
Post a Comment