اُجڑ کے گھر سے سرِ راہ آ کے بیٹھے ہیں
ہم اپنی ضد میں سبھی کچھ گنوا کے بیٹھے ہیں
کہاں تک اپنی ہی پرچھائیوں سے بھاگیں گے
یہ لوگ جو تِری محفل میں آ کے بیٹھے ہیں
اب آہ و زاریٔ غم خوار کا فریب کھُلا
یہ مہرباں بھی وہیں دل لگا کے بیٹھے ہیں
عذابِ حشر کا کیا ذکر ہم سے اے واعظ
ہم اس بلا کو یہیں آزما کے بیٹھے ہیں
وارث کرمانی
No comments:
Post a Comment